معیاری پوسٹس کا ذخیرہ

منگل، 5 مئی، 2020

استاد رسا دہلوی کے ”بے وفا“ شاگرد — عظیم اختر

گئے گزرے زمانہ کے استاد شاعروں کی طرح اللہ بخشے استاد رسا دہلوی بھی استاد شاگری کی روایت میں یقین رکھتے تھے اور شاگرد بناتے تھے۔سچ تو یہ ہے کہ وہ شاگرد بنانے کے نام پر شاگرد پالتے تھے لیکن شاگرد بنانے اور شاگرد پالنے کے معاملہ میں نہایت ہی متلون مزاج تھے چونکہ کھرے کے کھرے دہلی والے تھے، دہلی اور دہلی والے ہی ان کے لیے سب کچھ تھے۔ اس لیے غیر دہلی والے کو گھاس بھی نہ ڈالتے تھے۔ کوئی دہلی والا ہوتا تو سب سے پہلے اس کے حسب و نسب یاد دوسرے لفظوں میں اس کی دہلویت کا شجرہ معلوم کرتے اور اگر دل ٹکتا تو پھر اس کو اپنے تلامذہ میں داخل کرتے، محنت کرتے اور بقول شخصے لاگت لگاتے۔ ان میں خود اعتمادی پیدا کرنے اور شعری دنیا میں روشناس کرانے کے لیے اپنے ساتھ مشاعروں میں لے جاتے، شاگردغزل سرا ہوتاتو اپنے مخصوص انداز سے خوب داد دیتے اور اس کی پیٹھ تھپتھپاتے ۔

استاد رسا نے دبستان داغ کی روایتوں کو نئی نسلوں تک پہنچانے کے لیے بہت سے دہلی والوں کو شاگرد بنایا۔ ان کو شاعری کے رموز اور زبان و بیان کے نکات سمجھائے لیکن جب یہ شاگرد کسی قابل ہوئے تو خاموشی سے کسی اور استاد شاعر کی چھتری پر جا بیٹھے۔ کچھ شاگردوں نے تو ان کے تلمذ کا سرے سے ہی انکار کردیا۔استاد بے چارے اس دیدہ دلیری پر پیچ و تاب کھا کر رہ جاتے۔ اپنی عادت کے مطابق ایسے شاگردوں کو بے نقطہ سنا بھی نہیں سکتے تھے، بس یہی کہہ کر چپ ہو جاتے تھے کہ یہ اصل نسل سے دہلی والا نہیں تھا۔ اصل نسل سے دہلی والا ہوتا تو ایسا نہیں کرتا۔ 

استاد اصل نسل سے کسی کھرے دہلی والے کو اپنا جانشین بنانے کے خواہشمند تھے تاکہ دبستان داغ کی یہ روایت زندہ رہے کہ دہلی کی ایک تاریخی درگاہ کے شعر و شاعری کے شوقین سجادے نے استاد سے اصلاح لینے کی خواہش ظاہر کی۔ اندھے کو کیا چاہیے دو آنکھیں۔ استاد کو تو ایک کھرا دہلی والا اور وہ بھی سیدزادہ ہاتھ لگ رہا تھا، چنانچہ اولین فرصت میں سجادے کو اپنے تلامذہ میں شامل کیا اور داغ اسکول کی روایتوں کا امین قرار دے دیا۔ سجادے صاحب ہر دوسرے تیسرے دن استاد کی خدمت میں حاضر ہوتے، کچھ دیر بیٹھتے، اشعار پر اصلاح لیتے اور اجازت لے کر اپنے دوستوں میںپہنچ جاتے۔یہ سلسلہ ڈیڑھ دو سال تک جاری رہا، استاد اپنے ملنے جلنے والوں کے سامنے بڑے فخر سے نئے شاگرد کی خاندانی بزرگی کا دم بھرتے۔ اس کی شعری صلاحتوں کی تعریف کرتے، استاد کو گویا صحیح معنوں میں دہلی کی روایتوں کا وارث مل گیا تھا کہ خبریں اڑنے لگیں کہ استاد کا شاگرد ایک دوسرے استاد سے پینکیں بڑھا رہا ہے اور وہ استاد شاعر شام کے دھندلکے میں درگاہ میں آتے جاتے نظر آتے ہیں۔ 

دودھ کا جلا چھاچھ بھی پھونک پھونک کر پیتا ہے۔ اس لیے استاد کسی سے کچھ کہہ نہیں سکتے تھے۔ چنانچہ اپنے ہی طور پر حقیقت حال معلوم کرنے کی کوشش کی۔ادھرکئی دنوں تک جب سجادے صاحب استاد کی خدمت میں حاضر نہیںہوئے تو بلی تھیلے سے باہر آ گئی اور پتہ چلا کہ استاد کا شاگرد ٹونک کے ایک استاد شاعر کی چھتری میں جا بیٹھا ہے۔استاد ذہنی طورپر اس جھٹکے کے لیے تیار نہ تھے خون کا گھونٹ پی کر رہ گئے۔ چند دنوں بعد وہ شاگرد دوسرے استادکے جلومیں مشاعروں میں آنے جانے لگا، استاد کے نیاز مند اگر ان سے شاگرد کے بارے میں پوچھتے تو استاد طرح دیے جاتے اور تلملا کر رہ جاتے۔ اس شاگرد کے سیدہ زادہ اور پیر زادہ ہونے کی وجہ سے اس کے حسب و نسب کے بارے میں کچھ کہہ بھی نہیں سکتے تھے، بس خون کے گھونٹ پی کر رہ جاتے۔ 

ایک دن استاد اپنے دو تین نیازمندوں کے ساتھ اردو بازار کے ایک تھڑے پر بیٹھے ہوئے تھے کہ وہ سجادے صاحب آتے ہوئے نظر آئے۔ استاد کو تھڑے پر بیٹھے ہوئے دیکھا تو وہ ذرا جھجکے۔دور سے سلام کیا اور آگے بڑھنے لگے۔ استاد شاید ایسے کسی موقع کی تلاش میں تھے، اشارے سے سلام کا جواب دیتے ہوئے بڑے احترام سے ان کو آواز دی، اور اپنے پاس بلایا۔ وہ جھجکتے ہوئے استاد کے پاس آئے تو استاد کھڑے ہو گئے۔ان کے شانے پر ہاتھ رکھا اور ایک پھنکاری لے کر بولے’ابے سیدزادے شاعری کے شوق میں جہاں پہنچا ہے معلوم ہے وہ تو بڑی بڑی ریاستیں ہضم کر گئے اور ڈکار تک نہیں لی۔ تیرے بزرگوں نے تو صرف ڈیڑھ قبر ہی چھوڑی ہے تو کس برتے پر وہاں چلا گیا بھلا کب تک سفید ہاتھی پالے گا‘۔شاگرد کے پاس استاد کے سوال کا کوئی جواب نہیں تھا، منمنا کر رہ گئے اور دہلی کے ادبی حلقوں میں ایک عرصہ تک استاد کے اس تبصرے کی بازگشت سنائی یتی رہی۔

استاد مشاعرے میں تقریباًدو زانو بیٹھ کر شعر اور مصرعہ پڑھتے، خود گھٹنوں کے بل اٹھ جاتے۔ شعر کے نقطۂ عروج پر پہنچ کر وہ اور عام طورپر سامعین بھی جوش میں آجاتے اور واہ واہ کا شور بلند ہو جاتا، یہ استاد کا مخصوص اندازہ تھا۔ وہ چاہتے تھے کہ ان کا کوئی شاگرد ان کی پیروی کرے اور مشاعروں میں اسی انداز میں شعر پڑھاکرے چنانچہ ایک شاگرد پر توجہ کی، خوب ٹریننگ دی اور جب مطمئن ہو گئے تو مشاعروں کے اکھاڑے میں اتارنے کی تیاری کرنے لگے۔ 

خیرات گھر سے شروع ہوتی ہے چنانچہ سب سے پہلے اپنے ہی سالانہ مشاعرے میں اتارا۔ دو تین شاعروں کے بعد اس کے شاگرد کو دعوت سخن دی۔ شاگرد اسٹیج پر آیا، سامعین کے جم غفیر کو دیکھ کر نروس ہو گیا اور استاد کی ساری ٹریننگ بھول گیا۔ استاد نے ہمت بندھائی، تو ان کے قریب چار زانو ہو کر بیٹھ گیا اور مائک پر ہاتھ رکھ کر غزل شروع کرنا ہی چاہتا تھا کہ استاد نے اس سے دھیرے سے کہا، بیٹے دو زانو بیٹھو اور شعر سنائو۔ مائک حساس تھا، سامعین نے استاد کی سرگوشی سنی، شاگرد تو نروس ہو گیا۔ استاد نے پھر کان میں کہا، میاں دوزانو ہو کر بیٹھو۔شاگرد نے گھبرا کر استاد پر نظر ڈالی تو سامعین میں سے ایک آواز آئی استاد بکر بیٹھک کہو، بکر بیٹھک ہی سمجھے گا تمہارا یہ شاگرد یہ کمیلے میں کام کرتا ہے‘‘۔شاگرد بکر بیٹھک سنتے ہی دوزانوہو کر بیٹھ گیا اور مشاعرہ گاہ میں قہقہوں کا طوفان ابل پڑا۔

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

اُردو ڈیٹا بیس کیا ہے؟

ڈیٹا بیس ذخیرہ کرنے کی جگہ کا تکنیکی نام ہے۔ اردو ڈیٹا بیس معیاری اور کارآمد پوسٹس کے ذخیرے کا پلیٹ فارم ہے، جو سوشل میڈیا بالخصوص واٹس ایپ اور فیس بک کے توسط سے پوری دنیا میں ہر روز پھیلائی جاتی ہیں۔
مزید پڑھیں

پوسٹس میں تلاش کریں

اپنی تحریر بھیجنے کے لیے رابطہ کریں

نام

ای میل *

پیغام *