معیاری پوسٹس کا ذخیرہ

ہفتہ، 4 جولائی، 2020

اصنافِ سخن:ایک مکالمہ (بیت،قطعہ،رباعی،غزل) — بیج ناتھ سہائے فگارؔ

اس مکالمے میں یہ موضوعات زیرِ بحث لائے گئے ہیں۔
  • شعر
  • فرد
  • بیت
  • مثنوی
  • رباعی
  • غزل
  • قصیدہ
  • قطعہ
اصل کتاب کا املا قدیم ہے اور زبان کلاسیکی، امید ہے یہ ڈیجیٹائزیشن قارئین کے لیے مفید ثابت ہوگی۔ (شکیبؔ)

اصنافـِ سخن:ایکـ مکالمہ

مسرور: مجھے یہاں کچھ عرض کرنا ہے۔اور وہ یہ کہ شعر اور بیت اور فردیہ سب جدا جدا ہیں یا ایک ہیں۔کیونکہ آپ نے صرف شعر کا ذکر کیا ہے۔بیت یا فرد کا ذکر نہیں فرمایا۔

فخر: بیت مثنوی کے ہر شعر کو کہتے ہیں۔جو فرداً فرداً مقفیٰ ہوتے ہیں۔یعنی ہر دومصرعے باقافیہ ہوتے ہیں۔اور فرد غزل یا قصیدہ یا قطعہ کے ایسے ایک شعر کو کہتے ہیں جس کے مصرعہ اولیٰ میں قافیہ نہ ہو یہ سب اقسام شعر سے ہیں۔اور شعر ہر قسم کی نظم کو کہتے ہیں۔

منظور: کیا شعر کے بہت اقسام ہیں؟

فخر:ہاں! شعر کی دس قسمیں ہیں:

۱۔فرد۲۔ رُباعی۳۔ غزل۴۔قصیدہ۵۔ قطعہ۶۔ مثنوی۷۔ترجیع بند۸۔ ترکیب بند ۹۔مستزاد اور۱۰۔مسمط۔

مسرور:ان میں کیا فرق ہے؟

فخر:فرد کا ذکر آچکا ہے۔ رُباعی (بالضم) اَیسے دو اشعار کو کہتے ہیں جو باہم معنااً مربوط ہوں۔ وزن مقررہ رُباعی کے موافق موزوں ہوں۔ اور ہر مصرعہ اُن کا سوائے مصرعۂ ثالث کے مقفیٰ ہو۔ سوائے مصرعۂ ثالث ہم نے اس وجہ سے کہا کہ مصرعۂ ثالث کے مقفیٰ ہونے کی قید نہیں ہے۔ ہو یا نہو۔

رباعی:

منظور: وزن مقررہ رُباعی سے کیا مطلب ہے؟

فخر: رُباعی کے واسطے چند اوزان مقرر ہیں۔ اُنہیں اوزان میں رُباعی کہنی دُرُست ہے۔ یہ تم کو بحروں کے بیان میں معلوم ہوگا۔

دُنیا دریا ہے اور ہوس طوفان ہے
مانند حباب ہستی انسان ہے
لنگر ہے جو دِل تو ہر نفس باد مراد
سینہ کشتی ہے نا خدا ایمان ہے

اس رُباعی میں مصرعۂ ثالث باقی اور مصرعوں کی طرح پر با قافیہ نہیں ہے۔ اور یہ رُباعیات عمر خیام کی جن کے ہر چہار مصاریع مقفیٰ ہیں۔ وہو ہذا:

در پردۂ اسرار کسے را رہ نیست
زین بقیہ چون جان کسے آگہ نیست
جز در دِل خاک ہیچ منزل گہ نیست
افسوس کہ این فسانہ ہم کوتاہ نیست

رُباعی دیگر:

گر صلح نہ یابم ز فلک جنگ اینک
در نام نکو نباشدم ننگ اینک
جام مئے و لعل ارغواں رنگ اینک
آنکس کہ نمی خورد سروسنگ اینک​

غزل:

بفتحتین، لغت میں عورتوں سے حسن و عشق کی باتیں کرنے کو کہتے ہیں۔ اور اصطلاح میں اُن اشعار کو کہتے ہیں کہ منجملہ ان کے شعر اول کے ہر دو مصاریع اور ما بقی اشعار کے مصاریع ثانی مقفیٰ ہوں۔ ان اشعار کی تعداد بعضوں کے نزدیک پانچ سے کم اور پچیس سے زائد نہیں ہے۔ مگر اب متاخرین اس سے زیادہ بھی کہتے ہیں۔فائدہ: بعض کا یہ قول ہے کہ ایک شخص عربی تھا جس نے اپنی تمام عمر رند مشربی اور عشق بازی میں بسر کی تھی اور سخن عشقیہ کہتا اور حسن و عشق کی تعریف کیا کرتا تھا اُس کا نام غزل تھا لہذا اس مضمون کے اشعار کو بھی غزل کہتے ہیں۔ غزل میں سوائے مضامین عاشقانہ کے اور مضامین نہ ہونے چاہئیں۔ مگر متاخرین نے اور بعض متقدمین نے یہ بھی اختیار کیا ہے کہ مضامین موعظتؔ و دُعاء و کلیہ و فخریہ کہتے ہیں۔ لیکن ایسے دو ایک اشعار ہوں تو مضائقہ نہیں ہے ورنہ کثرت معیوب ہے۔

قصیدہ:

لغوی معنیٰ سطیر اور غلیظ کے ہیں۔ اِصطلاح میں اُن اَشعار کو کہتے ہیں جن میں سے شعرِ اول کے ہر دو مصاریع اور ما بقی اشعار کے مصاریع ثانی مقفیٰ ہوں اور سارے ایک ہی قسم کے مضمون کے مظہر ہوں۔مثلاً: مضمون مدح، ہجو،موعظت وغیرہ ہوں۔یا ذکرِ بہار، سرما، گرما یا اور کسی قسم کے مضامین ہوں قصیدہ کی حد کم از کم پندرہ یا انیس اشعار ہے۔ اور زِیادہ کی حد مقرر نہیں ہے۔ قصائد بعض اوقات مضمون کی رِعایت سے اور بعض اوقات حروف کی رِعایت سے نامزد کیے جاتے ہیں۔ مثلاً: بہاریہ، نعتیہ، لامیہ وغیرہم۔مثالیں قصائد کی سوداؔ کے یہاں بکثرت ہیں۔ اور دیگر شعراء کے یہاں بھی ہیں، بخیال طوالت قلم انداز ہوئیں۔

قصیدے اور غزل میں فرق؟

مسرورؔ : قصیدہ اور غزل میں کیا فرق ہے؟
فخرؔ : قصیدہ اور غزل میں علاوہ تعدادِ اَشعار کے یہ فرق ہے کہ قصیدہ کے جملہ اشعار ایک ہی مضمون کے مظہر ہوتے ہیں۔ غزل کے ہر شعر کا مضمون تمام ہوتا ہے۔غزل کے ایک شعر میں وصل کا بیان ہو تو دوسرے شعر میں ہجر کا ذِکر کر سکتے ہیں۔ مگر قصیدہ میں یہ نہیں ہوسکتا کہ ایک شعر میں مدح ہو اور دوسرے شعر میں ہجوبیان کریں۔

قطعہ :

قطع(قِ+طٖ+ع=قطع) بالکسر ،بالفتح خطا ہے مگر فصحائے متاخرین نے اس کو جائز کیا ہے۔لغت میں ٹکڑا کرنے کو کہتے ہیں۔اِصطلاح میں اُن اَشعار کو کہتے ہیں جو ایک مضمون کے مظہر ہوں۔ اور محتاجِ یک دِیگر ہوں۔ ان اشعار کی تعداد کم از کم دو اشعار ہے۔زائد کی حد مقرر نہیں ہے۔ اور شعر اول کے ہر دو مصاریع کا مقفیٰ ہونا بھی ضروری نہیں ہے۔ قطع کو قصیدہ کا جزو کہنا چاہیے۔

مسرورؔ : توقصیدہ اور قطع میں بہت ہی کم فرق ہے۔

فخرؔ : قصیدہ اور قطع میں بہت فرق ہے۔ اول تو یہ کہ اشعار قصیدہ کے ایک دوسرے کے محتاج نہیں ہوتے۔قطع کے اشعار محتاج یک دیگر ہوتے ہیں۔دوسرے یہ کہ قصیدہ کے اَول شعرکے دونوں مصرعے مقفیٰ ہونے چاہئیں۔ قطع میں یہ ضروری نہیں۔ تیسرے قطع کے اشعار کم از دو بھی ہو سکتے ہیں۔ قصیدہ کے شعروں کی حد کم از کم پندرہ یا اُنیس اَشعار ہے۔

___
ڈیجیٹائزیشن: فارقلیط رحمانی
ماخوذ از میزان سخن المعروف بہ اسم تاریخی معرفت العروض از بیج ناتھ سہائے فگار

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

اُردو ڈیٹا بیس کیا ہے؟

ڈیٹا بیس ذخیرہ کرنے کی جگہ کا تکنیکی نام ہے۔ اردو ڈیٹا بیس معیاری اور کارآمد پوسٹس کے ذخیرے کا پلیٹ فارم ہے، جو سوشل میڈیا بالخصوص واٹس ایپ اور فیس بک کے توسط سے پوری دنیا میں ہر روز پھیلائی جاتی ہیں۔
مزید پڑھیں

پوسٹس میں تلاش کریں

اپنی تحریر بھیجنے کے لیے رابطہ کریں

نام

ای میل *

پیغام *