شاعری کے لیے اوزان و بحور
بعض اصحاب کا خیال ہے کہ اردو شاعری کے لئے بجائے عربی اور فارسی بحور کے ہندي عروض پنگل کے اوزان بہتر ہیں۔ اور اپنی تا ئید میں یہ دلیل پیش کرتے ہیں کہ طبعی اوز ان نسبتا غیر طبعی اوز ان کے، موز وں ہوتے ہیں۔
قاعدہ ہے کہ کوئی زبان بننے کے ایک مت بعد اس زبان کے الفاظ اور ان کے اوزان کو ملحوظ رکھ کر عروض کے اوزان مرتب کئے جاتے ہیں۔اور وہی اوزان اس زبان کے لئے طبعی ہو سکتے ہیں۔
یہاں یہ دیکھنا ضرور ہے کہ الفاظ اردو کی ساخت کس قسم کی ہے؟ غریب اردو کی بساط ہی کچھ نہیں۔ غیر کے املاک پر قابض ہوجانا اس کا قدیم سے شمار ہے ۔ عربی، فارسی، مرہٹی، بھاکا کے الفاظ اس میں یکساں مستعمل ہیں مگر مرہٹی اور جھا کا اکثر ذرا تحریف و تصغیر کے ساتھ اور عربی و فارسی کمتر تحریف و تصغیر کے ساتھ اور اکثر بجنسہٖ۔ لیکن اس کے ضوابط صرف و نحو میں فارسیت کو زیادہ دخل ہے۔ اس لئے اردو شاعری کے لئے عروض و فارسی کے اوزان وبحور پوری مناسبت رکھتے ہیں۔
ہندی عروض پنگل کے اوزان اردو کے لئے طبعی نہیں ہو سکتے ۔
قاعدہ ہے کہ کوئی زبان بننے کے ایک مت بعد اس زبان کے الفاظ اور ان کے اوزان کو ملحوظ رکھ کر عروض کے اوزان مرتب کئے جاتے ہیں۔اور وہی اوزان اس زبان کے لئے طبعی ہو سکتے ہیں۔
یہاں یہ دیکھنا ضرور ہے کہ الفاظ اردو کی ساخت کس قسم کی ہے؟ غریب اردو کی بساط ہی کچھ نہیں۔ غیر کے املاک پر قابض ہوجانا اس کا قدیم سے شمار ہے ۔ عربی، فارسی، مرہٹی، بھاکا کے الفاظ اس میں یکساں مستعمل ہیں مگر مرہٹی اور جھا کا اکثر ذرا تحریف و تصغیر کے ساتھ اور عربی و فارسی کمتر تحریف و تصغیر کے ساتھ اور اکثر بجنسہٖ۔ لیکن اس کے ضوابط صرف و نحو میں فارسیت کو زیادہ دخل ہے۔ اس لئے اردو شاعری کے لئے عروض و فارسی کے اوزان وبحور پوری مناسبت رکھتے ہیں۔
ہندی عروض پنگل کے اوزان اردو کے لئے طبعی نہیں ہو سکتے ۔
پہلا
یہ کہ بہاکا میں ابتدا بسکون ممکن ہے جس سے سر لفظ پر نون غنہ کی آواز پیدا ہو جا تی ہے ۔ اور اردومیں نا ممکن۔
ان تینوں صورتوں سے ظاہر ہے کہ ار دو کے لئے ہندی عروض پنگل کے اوزان غیر طبعی ہیں کیوں کہ ہندی عروض کے اور ان میں ہندی الفاظ کی گنجائش رکھی گئی ہے جو اردو سےمختلف النوعیّہ ہیں۔
اور خاص عربی کے بحور بھی اردو کے لئے غیرطبعی ہیں، اس کی وجہ یہ ہے کہ عربی میں بھی توالیِ حرکات کی کثرت ہے اور با وجود کثیر التعداد زھافات کے اہل عرب اپنی ضرورتوں کے لحاظ سے مفاعلن کو فعلتن، اور فعلتن کو مفتعلن، اور مفتعلن کو مستفعلن بنا لیتے ہیں۔ لیکن فارسی والوں نےعربی سے عروض حاصل کرکے ایسا جکڑ دیا کہ اس میں سوائے زحافات کے اس قسم کی تصغیر و تکبیرِ ارکان کا جواز نہیں رکھا۔
پس اردو شاعری کے لئے فارسی اوزان و بحور صرف موزوں نہیں بلکہ طبعی اوزان ہیں۔
دوسرا
یہ کہ بہاکا میں لفظ کا آخر متحرک بھی رہتا ہے ۔ اور اردومیں نا ممکن۔تیسرا
یہ کہ بہاکا میں توالیِ حرکات کا بھی وجود ہے جس کی گنجایش بہاکا اوزان میں رکھی گئی ہے۔ اور اردو میں محال۔ان تینوں صورتوں سے ظاہر ہے کہ ار دو کے لئے ہندی عروض پنگل کے اوزان غیر طبعی ہیں کیوں کہ ہندی عروض کے اور ان میں ہندی الفاظ کی گنجائش رکھی گئی ہے جو اردو سےمختلف النوعیّہ ہیں۔
اور خاص عربی کے بحور بھی اردو کے لئے غیرطبعی ہیں، اس کی وجہ یہ ہے کہ عربی میں بھی توالیِ حرکات کی کثرت ہے اور با وجود کثیر التعداد زھافات کے اہل عرب اپنی ضرورتوں کے لحاظ سے مفاعلن کو فعلتن، اور فعلتن کو مفتعلن، اور مفتعلن کو مستفعلن بنا لیتے ہیں۔ لیکن فارسی والوں نےعربی سے عروض حاصل کرکے ایسا جکڑ دیا کہ اس میں سوائے زحافات کے اس قسم کی تصغیر و تکبیرِ ارکان کا جواز نہیں رکھا۔
پس اردو شاعری کے لئے فارسی اوزان و بحور صرف موزوں نہیں بلکہ طبعی اوزان ہیں۔
_____
ڈیجیٹائزیشن: شکیبؔ احمد
ماخوذ از مقدمہ آدابِ شاعری، عالی رفاعی حیدرآبادی
ماخوذ از مقدمہ آدابِ شاعری، عالی رفاعی حیدرآبادی
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں