مجھ پر پہلی بار سچائی 8سال کی عمر میں آشکار ہوئی جب میری نانی جان نے بتایا کہ یہ ساری دنیا ایک گائے نے اپنے ایک سینگ پر اٹھا رکھی ہے، جب وہ تھک کر زمین دوسرے سینگ پر منتقل کرتی ہے تو زلزلہ آتا ہے۔ دوسری سچائی دس سال کی عمر میں حاصل ہوگئی جب پتا چلا کہ ایک پودے کے روئی نما گچھوں کو اللہ میاں کا سلام دے کر بھیجا جائے تو وہ ساتویں آسمان پر جاکر یہ سلام بحفاظت پہنچا آتے ہیں۔ پندرہ سال کا ہونے تک بے شمار کائناتی راز وں سے پردہ ہٹ چکا تھا مثلاًاگر ہاتھ سے سرخ مرچیں زمین پر گر جائیں تو قیامت والے دن اِنہیں پلکوں سے اُٹھانا پڑے گا، رات کو قبرستان کے قریب سے نہیں گزرنا چاہئے کیونکہ چڑیلیں چمٹ جاتی ہیں، جنات کے حملے کا خطرہ ہو تو منہ کے اوپر رضائی لے لینی چاہئے، عورتیں کھلے بالوں کے ساتھ چھت پر جائیں تو جنات عاشق ہوجاتے ہیں، شام کے وقت جھاڑو نہیں دینا چاہئے ورنہ آمدنی کم ہوجاتی ہے، بارش نہ ہورہی ہو تو کسی بوڑھی عورت کے سر میں پانی انڈیلنا چاہئے، کسی کو لومڑی کے بال مل دیئے جائیں تو اسے شدید خارش شروع ہوجاتی ہے، سرخ آندھی تب آتی ہے جب کسی بے گناہ کا خون ہوتاہے، جوتی اتفاقاً الٹی پڑی ہو تو اس کامطلب ہے کہ عنقریب کوئی سفر درپیش ہے، مہمان کو آنا ہو تو پہلے منڈیر پر کو ّا اعلان کرتاہےوغیرہ وغیرہ۔ ایک مدت تک مجھے ان میں سے بہت سی باتوں پر ایمان کی حد تک یقین رہا، اگر کوئی مجھ سے اختلاف کرتا تھا تو میرا دل چاہتا تھا کہ اسے ایک گھونسہ لگائوں۔ مجھے ہر وہ شخص احمق لگتا تھا جو میری باتوں سے اتفاق نہیں کرتا تھا۔
ہم سب ایسی ہی باتیں سن کر بڑے ہوئے ہیں، ہر شخص اپنے عقیدے میں پکا ہے۔ اس معاملے میں ہمیں یقین ہے کہ سچائی ہم پر آشکار ہوچکی ہے اور دوسرے تاحال گمراہی میں پڑے ہوئے ہیں۔ ایسے میں اگر کوئی ذرا سی بات پر بھی ہم سے اختلاف کی جرات کرلے تو ہمارا دل چاہتا ہے کہ اس کی تکا بوٹی کر دیں۔ جب کچھ نہیں بن پاتا تو اتنا کہہ کر دل کو تسلی دے لیتے ہیں کہ یہ توہے ہی دوزخی۔ ایسے میں ہمارے منہ سے ہر بات فیصلے کی شکل میں نکلتی ہے، ہم یہ ماننے کو تیار ہی نہیں کہ کسی بات کو سمجھنے میں ہم سے بھی غلطی ہوسکتی ہے۔
آپ کسی محفل میں بائیں ہاتھ سے گلاس پکڑ کر پانی پئیں تو لوگ جھٹ سے آپ کو یاد دلاتے ہیں کہ پانی دائیں ہاتھ سے پینا چاہئے، آپ کھڑے ہوکر پانی پی رہے ہو ں تو یہ آپ کو اطمینان سے یاد دلاتے ہیں کہ بیٹھ کر پانی پینا چاہئے، لیکن اِس دوران اگر آپ انہیں کوئی نصیحت کردیں کہ "قبلہ آپ کو سونے کی انگوٹھی نہیں پہننا چاہئے" تو سمجھ لیں کہ آپ نے اپنی شامت کو آواز دے لی۔ یہ اُس وقت تک سکون سے نہیں بیٹھتے جب تک آپ کے دماغ کا بھرکس نہ بنا دیں۔
ایسے لوگ ہم میں سے ہی ہوتے ہیں، ہماری ہی گلیوں محلوں میں پائے جاتے ہیں اور دن رات مذہب کو مشکل سے مشکل تر بنانے کا فریضہ سرانجام دیتے ہیں۔ یہ خود توہر وقت، ہر کام میں استخارہ کرنے کی تلقین کرتے ہیں لیکن جب ان سے پوچھا جائے کہ حضور آپ زندگی میں اتنے ناکام کیوں رہے تو کاٹ کھانے کو دوڑتے ہیں۔ ایسے ہی ایک نیک کالم نگار زلزلوں کے بارے میں آئے روز پیش گوئیاں کرتے رہتے ہیں، کبھی کبھی تو لگتاہے زلزلہ آنے پر سب سے زیادہ خوشی بھی انہی کو ہوتی ہے۔ اِدھر کوئی زلزلہ آتا ہے اُدھر وہ ٹی وی پر نمودار ہوتے ہیں اور بڑی متانت سے زلزلے کی وجوہات بتانا شروع کر دیتے ہیں۔ جو لوگ ان سے ذاتی طور پر واقف ہیں وہ جانتے ہیں کہ اگر موصوف کی کسی بات سے اختلاف کرلیا جائے تو خود ہی زلزلہ لے آتے ہیں۔
ہم میں سے ہر شخص اپنی اپنی تحقیق کے مطابق سچا ہے کیونکہ ہماری ساری تحقیق اپنے ہی فرقے اور اپنی سوچ کے مطابق رہی ہے۔ تحقیق اگر یقین کے جذبے کے ساتھ کی جائے تو ظاہری بات ہے ہر جواب مثبت ملتاہے۔ کیا وجہ ہے کہ ہم میں سے ہر شخص خود کو پرفیکٹ مسلمان کہنے پر مصر ہے پھر بھی کہیں’مسلمان، نظر نہیں آتا۔ ہمیں بھی اپنے بزرگوں پر فخر ہے کہ وہ بہت اچھے مسلمان تھے، بھئی ہوں گے، ہم خود کیا ہیں؟دنیا کسی کو اس کے ماضی کے حوالے سے نہیں یاد رکھتی، اگر آپ زندہ ہیں تو آپ کا حال ہی آپ کا پیمانہ ہے۔ آپ نے اکثر سنا ہوگا کہ یورپ نے اسلام کے سنہری اصولوں سےاپنےآپ کو سدھار لیا ہے، تو قبلہ یہ اصول آپ بھی اپنا لیجئے، آپ تو اس کی ابتدا کے دعویدار ہیں، آپ کو تو یہ اصول ازبر ہونے چاہئیں۔ لیکن نہیں! بس اتنا اطمینان ہی کافی ہے کہ یہ اصول ہمارے تھے۔ یہ بات کہتے ہوئے ہم اکثر یہ کہنا چاہتے ہیں کہ گویا مغرب نے ہم سے ہمارے اصول زبردستی چھین کر اپنے ہاں لاگو کر لئے ہیں۔ ہم میں سے ہر شخص یہی رونا روتانظر آتاہے کہ مسلمانوں کا کیا بنے گا؟ یعنی ہمارے علاوہ سب لوگوں کا کیا بنے گا۔ یہی وہ سوچ ہے جس نے ہمارے پائوں میں بیڑیاں ڈال رکھی ہیں۔ ہم کھلے ذہن سے نہ کوئی بات کرسکتے ہیں نہ سن سکتے ہیں، ہمیں بس اپنے جیسے لوگوں میں بیٹھ کر واہ واہ سننے کا مزا آتاہے، لوگ آپس میں مل بیٹھتے ہیں، اپنی اچھائیاں اور دوسروں کی برائیاں بیان کرتے ہیں، داد و تحسین سمیٹتے اور سکون کی نیند سو جاتے ہیں۔
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں