آپ اتنا ڈرتے کیوں ہیں؟
نیا ڈنر سیٹ خریدا ہے تو کھانا پرانے میں کیوں کھارہے ہیں؟
نئے کپڑے سلوائے ہیں تو اُنہیں عام حالات میں بھی پہننے میں کیا مضائقہ ہے؟
گھر میں کولڈ ڈرنک کی خالی بوتلوں کے انبار لگتے جا رہے ہیں، لیکن پھینکنے کی ہمت نہیں ہے۔
نیا بلب خرید لیا ہے تو پرانے کو سٹور میں کیوں سنبھال کے رکھ دیا ہے؟
باتھ رو م میں نیا شیونگ ریزر موجود ہے تو پرانے پندرہ ریزر کا انبار کیوں لگا رکھا ہے؟
نئی چپل خرید کر ڈبہ میں گھر میں رکھی ہے، پرانی پہن کر کیوں گھوم رہے ہیں؟
نئی بیڈ شیٹ کیوں سوٹ کیس میں پڑی پڑی پرانی ہوجاتی ہے؟
جہیز میں ملی نئی رضائیاں کیوں بیس سال سے استعمال میں نہیں آئیں؟
باہر سے آیا ہوا لوشن کیوں پڑا پڑا ایکسپائر ہو گیا ہے؟؟؟
دل چاہیئے۔۔۔!
نئی چیز استعمال کرنے کے لیے پہاڑ جتنا دل چاہیئے۔
نیا ڈنر سیٹ خریدا ہے تو کھانا پرانے میں کیوں کھارہے ہیں؟
نئے کپڑے سلوائے ہیں تو اُنہیں عام حالات میں بھی پہننے میں کیا مضائقہ ہے؟
گھر میں کولڈ ڈرنک کی خالی بوتلوں کے انبار لگتے جا رہے ہیں، لیکن پھینکنے کی ہمت نہیں ہے۔
نیا بلب خرید لیا ہے تو پرانے کو سٹور میں کیوں سنبھال کے رکھ دیا ہے؟
باتھ رو م میں نیا شیونگ ریزر موجود ہے تو پرانے پندرہ ریزر کا انبار کیوں لگا رکھا ہے؟
نئی چپل خرید کر ڈبہ میں گھر میں رکھی ہے، پرانی پہن کر کیوں گھوم رہے ہیں؟
نئی بیڈ شیٹ کیوں سوٹ کیس میں پڑی پڑی پرانی ہوجاتی ہے؟
جہیز میں ملی نئی رضائیاں کیوں بیس سال سے استعمال میں نہیں آئیں؟
باہر سے آیا ہوا لوشن کیوں پڑا پڑا ایکسپائر ہو گیا ہے؟؟؟
دل چاہیئے۔۔۔!
نئی چیز استعمال کرنے کے لیے پہاڑ جتنا دل چاہیئے۔
جو لوگ اس جھنجٹ سے نکل جاتے ہیں ان کی زندگیوں میں عجیب طرح کی طمانیت آ جاتی ہے۔ یہ لوگ شرٹ خریدیں تو اگلے دن پورے اہتمام سے پہن لیتے ہیں۔ چپل خریدتے ہیں تو دوکان ہی میں پپن لیتے ہیں۔
یہ ہر اوریجنل چیز کو اُس کی اوریجنل شکل میں استعمال کرتے ہیں۔۔۔
اور ہم جیسے دیکھنے والوں کو لگتا ہے جیسے یہ بہت امیر ہیں
حالانکہ یہ سب چیزیں ہمارے پاس بھی ہوتی ہیں
لیکن ہماری بزدلی ہمیں ان کے قریب بھی نہیں پھٹکنے دیتی۔
دن پہ دن گذرتے جاتے ہیں لیکن ہم نقل کی محبت میں اصل سے دور ہوتے چلے جاتے ہیں۔
یہ ہر اوریجنل چیز کو اُس کی اوریجنل شکل میں استعمال کرتے ہیں۔۔۔
اور ہم جیسے دیکھنے والوں کو لگتا ہے جیسے یہ بہت امیر ہیں
حالانکہ یہ سب چیزیں ہمارے پاس بھی ہوتی ہیں
لیکن ہماری بزدلی ہمیں ان کے قریب بھی نہیں پھٹکنے دیتی۔
دن پہ دن گذرتے جاتے ہیں لیکن ہم نقل کی محبت میں اصل سے دور ہوتے چلے جاتے ہیں۔
کسی کے گھر سے کھانے کی کوئی چیز آ جائے تو خود کھانے کی بجائے سوچنے لگتے ہیں کہ آگے کہاں بھیجا جا سکتا ہے۔
ہر وہ کیک جس پر لگی ٹیپ تھوڑی سی اکھڑی ہوئی ہو‘ اس بات کا ثبوت ہے کہ اہل خانہ نے ڈبہ کھول کر چیک کیا ہے اور پھر اپنے تئیں کمال مہارت سے اسے دوبارہ پہلے والی حالت میں جوڑنے کی ناکام کوشش کی ہے۔
پتہ نہیں کیوں ہم میں سے اکثر کو ایسا کیوں لگتا ہے کہ اچھی چیز ہمارے لیے نہیں ہو سکتی۔اچھے رنگ کے کپڑے اپنے لئے نہیں ہے۔ بہت اچھا لڑکا ہو تو بھی لڑکی دینے سے خوف کرتے ہیں۔
اور تو اور۔۔۔
ہم بچے سے جوان ہوگئے مگر اپنے ناپ کے کپڑے اور جوتے نصیب نہ ہوئے!
جوتا احتیاطاً ایک دو نمبر بڑا لیا جاتا، لاکھ پہن کر رو کر بھی دکھایا کہ دیکھو اماں میری ایڑھی تو اس جوتے کی کمر تک جا رہی ہے مگر ایک ہی جواب کہ پاؤں بڑھ رہا ہے اگلے سال برابر آ جائے گا اور قسم سے اگلا سال آیا بھی نہ ہوتا اور جوتا لیرو لیر ہو جاتا ہے، کپڑے ہمیشہ ایک ناپ بڑے رکھوانے ہیں تا کہ اگلے سال چھوٹے بھائی کو بھی پورے ہو جائیں ـ چلیں اس شر میں بھی خیر ہی تھی۔۔۔
ہم ساری زندگی اچھے لباس کے میلا ہونے کے ڈر سے جیتے ہیں اور پھر ایک دن دودھ کی طرح اجلا لباس پہن کر مٹی میں اتر جاتے ہیں!!!
زندگی گزاریئے مت، جینا سیکھئے۔۔۔ڈرنا چھوڑیں، زندگی کا لطف دوبالا ہوجائیگا۔
خوش رہیں، خوشیاں بانٹتے رہیں!
(خان مزمل :شخصیت کی تعمیر کی وال سے)
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں