عشق میں وصل کی، تدبیر نہیں ہوتی تھی |
زلف کُھلتی تھی! گرہ گیر نہیں ہوتی تھی |
نہیں ہوتا تھا اکیلے میں، اکیلا میں بھی |
وہ بھی تصویر میں، تصویر نہیں ہوتی تھی |
میں بھی اُس کُوچے میں جاتا تھا، زرہ پہنے بغیر |
اُس کے ہاتھوں میں بھی، شمشیر نہیں ہوتی تھی |
بے دلی ہے، سببِ عجزِ تکلم ورنہ |
بند لب کھلنے میں، تاخیر نہیں ہوتی تھی |
ایسے زندان میں، اک عمر مُقیّد رہا میں |
جس کے دروازے پہ، زنجیر نہیں ہوتی تھی |
ہائے وہ حلقۂ اربابِ فراست کہ جہاں |
گفتگو ہوتی تھی ! تقریر نہیں ہوتی تھی |
گردشِ وقت کوئی دور تھا، ایسا بھی کہ جب |
شاعری خون سے، تحریر نہیں ہوتی تھی |
میں نے ناخن سے کوئی زخم، کریدا برسوں |
ورنہ لہجے میں، یہ تاثیر نہیں ہوتی تھی |
اُس طرف کِشتِ غزل ہوتی بھی، گُل ریز تو کیوں؟ |
اُس طرف پیرویِ میر، نہیں ہوتی تھی |
بدھ، 6 مارچ، 2019
عشق میں وصل کی، تدبیر نہیں ہوتی تھی
سبسکرائب کریں در:
تبصرے شائع کریں (Atom)
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں