مکتب ِفکر یا مکتبۂ فکر؟ اس معاملے میں ہم اکثر بچل جاتے ہیں۔ بڑے معروف ادیبوں کو ’’مکتبۂ فکر‘‘ لکھتے ہوئے پڑھا اور بولتے ہوئے سنا، اس لیے ہم گڑبڑا جاتے ہیں کہ صحیح کیا ہے۔ ’مکتبِ فکر‘‘ اصل میں اسکول آف تھاٹ کا ترجمہ ہے۔ اب ظاہر ہے کہ اسکول کو مکتب ہی کہتے ہیں۔ بقول شاعر:
مکتبِ عشق کا دستور نرالا دیکھا |
اُس کو چھٹی نہ ملی جس نے سبق یاد کیا |
’مکتب‘ عربی زبان کا لفظ ہے اور مطلب ہے: درس گاہ، لکھنے پڑھنے کی جگہ، اسکول، مدرسہ وغیرہ۔ جمع اس کی ’مکاتب‘ ہے۔ ’مکتبِ فکر‘ یا ’مکتبِ خیال‘ کا مطلب ہوا: کسی خاص خیال یا نظریے کے لوگوں کا گروہ۔ جب کہ ’مکتبہ‘ کا مطلب ہے: کتاب خانہ، دفتر وغیرہ۔ چنانچہ مکتبۂ خیال کے بجائے مکتبِ خیال لکھنا چاہیے۔ کتابوں کی دکان کے لیے مکتبہ عام ہے۔
اوپر ہم نے ایک لفظ بچلنا لکھ دیا تھا۔ خیال آیا کہ یہ لفظ تو اب متروک ہوگیا۔ تاہم لغات میں موجود ہے۔ ہندی کا لفظ ہے اور مطلب ہے: بھولنا، غلطی کرنا، پھسلنا، بہکنا، گم ہو جانا، رستہ بھولنا، مچلنا، اَڑنا، ضد کرنا، بدکنا، بھڑکنا، دیوانہ ہونا، جنون ہونا وغیرہ۔ اتنے کثیرالمعانی لفظ کا متروک ہونا یا ترک کردینا مناسب نہیں۔ ایسا ہی ایک لفظ ’’بچکنا‘‘ بھی ہے جس کے استعمال سے لوگ بچک رہے ہیں۔ اس کا مطلب ہے: ہٹ جانا، ڈرنا، موچ آنا، ناامید ہونا۔ ہوسکتا ہے بچ کر چلنا اسی بچکنے سے ہو۔ ایسے الفاظ جن کا استعمال کم ہوگیا ہو یا متروک ہوتے جارہے ہوں انہیں زندہ کرنے کی ضرورت ہے۔
دوسری طرف کچھ الفاظ ایسے ہیں جن کا املا بگاڑا جارہا ہے، مثلاً ’فی الفور‘ کو ’’فلفور‘‘ لکھنا، ’کالعدم‘ کو ’’کال عدم‘‘ اور ’بالکل‘ کو ’’بلکل‘‘ لکھنا۔ یہ بالکلیہ غلط ہے۔ ’نا‘ اور ’نہ‘ کا استعمال بھی غلط ہورہا ہے۔ لکھنے والے اس پر توجہ دیں۔
’نے‘ کا استعمال بھی غلط ہورہا ہے، مثلاً ’’میں نے تم سے کچھ کہنا ہے‘‘، ’’آپ نے ایسا نہ کرنا تھا‘‘، ’’اس نے لاہور تو جانا ہی ہوا‘‘، ’’اب ہم نے تم سے کیا لینا ہے‘‘ وغیرہ۔ یہ اور اس طرح کے دوسرے جملے جن میں ’نے‘ کے ساتھ فعلِ مصدر آتا ہے، پنجابی روزمرہ میں داخل ہیں اور پنجابی قواعد کی رو سے درست بھی ہیں۔ البتہ اردو قواعد اور روزمرہ دونوں کی رو سے ان کو کسی طرح درست قرارنہیں دیا جاسکتا۔ ایسے تمام مواقع پر ’نے‘ کے بجائے ’کو‘ استعمال ہوتا ہے، مثلاً ’’مجھ کو (مجھے) تم سے کچھ کہنا ہے‘‘، اور ’’آپ کو ایسا نہ کرنا تھا‘‘۔ اخبارات میں ’نے‘ کا غلط استعمال ہورہا ہے اور اس میں کوئی ہرج بھی نہیں سمجھا جارہا۔ لیکن اچھی اردو لکھتے ہوئے اس سے گریز کرنا چاہیے۔
ایک جملہ ہے ’’پھر ہونا کیا تھا؟‘‘ جملہ بظاہر اچھا ہے، لیکن اس کے بجائے ’’ پھر ہوتا کیا‘‘ لکھا جائے تو یہ فصیح تر ہوگا۔ اسی طرح ’’گاڑی نے جہاں ٹھیرنا ہے‘‘ کے بجائے لکھا جائے ’’گاڑی کو جہاں ٹھیرنا ہے‘‘ یا ’’گاڑی جہاں ٹھیرے گی‘‘۔ دوسرا جملہ بہتر ہے۔
بعض دفعہ ’کو‘ کے استعمال میں کسی قدر الجھن ہوتی ہے، مثلاً ’’میں نے تمہیں سو روپے دینے ہیں‘‘۔ اس کی صحیح صورت یہ ہوگی ’’مجھ کو تم کو 100 روپے دینے ہیں‘‘۔ لیکن اس میں ’کو‘ کی تکرار کی وجہ سے یہ سمجھ میں نہیں آتا کہ دینے والا کون ہے اور لینے والا کون؟ لہٰذا ایسے مواقع پر اہلِ زبان دوسری طرح کے جملے بولتے ہیں جیسے ’’مجھ کو تمہارے سو روپے دینے ہیں‘‘، یا ’’میں تمہیں سو روپے کا دین دار ہوں‘‘، ’’مجھ پر تمہارے سو روپے آتے ہیں‘‘۔ لیکن اس کھکھیڑ میں کون پڑے گا۔ سیدھے سیدھے سو روپے دو اور جان چھڑائو۔ ہمارے خیال میں ’’مجھ کو‘‘ کی جگہ ’’مجھے‘‘ کہہ دیا جائے یعنی ’’مجھے تمہارے سو روپے دینے ہیں۔‘‘
’نے‘ کے ساتھ حالیہ تمام لانااردو قواعد کی رو سے غلط نہیں کہے جاسکتے۔ مثلاً ’’میں نے لاہور دیکھا ہوا ہے‘‘، ’’اس نے شراب پی ہوئی تھی‘‘، ’’ہم نے بچوں کے لیے بہت سی چیزیں منگوائی ہوئی ہیں،تم نے یہ کیا تماشا بنایا ہوا ہے؟،لڑکوں نے سارے کام کیے ہوئے ہیں۔‘‘ پروفیسر آسی ضیائی لکھتے ہیں کہ اب سے ڈھائی تین سو سال پہلے دہلی یا دوسرے ’’اردو علاقوں‘‘ کے لوگ اس طرح بول بھی لیتے تھے، لیکن جب سے اردو تحریر میں آئی ہے اس طرح کے استعمال کی کوئی ایک مثال بھی نہیں ملتی۔ چنانچہ ’نے‘ کے ساتھ حالیہ تمام کا استعمال ازروئے روزمرہ غلط ہے، مگر اب یہ غلطی بہت عام ہوگئی ہے اور حد یہ ہے کہ اسکول کی نصابی کتابوں میں بھی یہ موجود ہے۔ لیکن ان جملوں کو اس طرح لکھنا یا بولنا صحیح ہوگا ’’لاہور میرا دیکھا ہوا ہے،وہ شراب پیے ہوئے تھا،ہم نے بچوں کے لیے بہت سی چیزیں منگوائی ہیں،تم نے یہ کیا تماشا بنا رکھا ہے؟، لڑکوں نے سارے کام کرلیے ہیں‘‘۔ مگر اب اس الجھن میں کون پڑتا ہے، ہم خود بچل جاتے ہیں۔
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں