چنگا بھلا اپنے ٹھکانے پر بیٹھا اس دن کتابیں دیکھ رہا تھا کہ Wreck This Journal سامنے آ گئی۔ اب عجیب سین تھا، جس کتاب کے نام کا مطلب ہی یہی ہو کہ اسے پھاڑ دیں، اسے بندہ کھول کے تو کم از کم دیکھے گا۔ کھول لی اور لڑ گئی۔ ۔۔ فلاں صفحے پر زبان سے ڈرائنگ کریں، اس پر چیونگم چپکائیں، اس پر سر کے بالوں سے ڈیزائین بنائیں، اس پر پینٹ میں سنے ہاتھ رکھیں، توبہ توبہ۔ جو مرضی گند ماریں بس سو ایک صفحوں کی وہ کتاب پندرہ ڈالر میں خریدنا پڑے گی۔
کچھ بھی نہیں تھا، لیکن سب کچھ تھا۔ کتاب بنانے والی خاتون کے مطابق یہ کتاب آپ کے غصے اور بوریت کی ساتھی ہے۔ یہ آپ کی کری ایٹویٹی کو تازہ دم کرتی ہے اور یہ آپ کو ایک آپشن مزید بھی دیتی ہے کہ جب موڈ شدید آف ہو، ڈپریشن ہو، تو اس کتاب کو اٹھائیں اور یہ گھما کے سامنے والی دیوار پر ماریں یا چھت پر جا کے اسے نیچے پھینک دیں۔
پتا ہے، اس کی سیل کتنی ہوئی ہے آج تک؟ 70 لاکھ! گورا کیسا ظالم کتاب دوست ہے واللہ، جس پر مرتا ہے، اسے مارنے کے لیے بھی پندرہ ڈالر خرچ کر دیتا ہے۔ ایک ہم ہیں کہ اچھے سے اچھا ادبی رسالہ یا کتاب ہزار سے زیادہ چھپ جائے ، تو مصنف کے پوتے بھی اپنے دوستوں کو گفٹ کرتے ہیں۔
(حسنین جمال کے کالم " اسکول کی کاپیوں اور کتابوں سے جڑے کرتب" سے ماخوذ)
Yeh kitab phad do - Hasnain Jamal
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں