معیاری پوسٹس کا ذخیرہ

جمعہ، 17 فروری، 2023

مولانا ارشدمدنی کے بیان کا تجزیہ - ابوفہد ندوی

مسلم مخالف بیانیے کو کاؤنٹر کرنے کی کوشش

ابوفہد ندوی

اگر نفسیاتی طورپردیکھیں تو مولانا ارشد مدنی صاحب کا حالیہ بیان داعیانہ یا جارحانہ کم مصالحانہ اوردوستانہ زیادہ ہے۔ یہ بیان بھی ان کے سابقہ بیانات اورجمعیت کے دونوں دھڑوں کے مروجہ مزاج سے زیادہ میل کھاتا ہے۔ بیان کے بعد مدنیّین صاحبان نے جو بیانات اور انٹرویوز دیے ہیں وہ بھی ان کے مصالحانہ،دوستانہ اورایک طرح سےسپر افگندگی والے مزاج اورشبیہ کا ہی پتہ دیتےہیں۔ سپرافگندگی کے لیے تنہا جمعیت کو ذمہ دار ماننا شاید درست نہ ہو کیونکہ یہ تو اب قومی مزاج بن گیا ہے تاہم اس حوالے سے جمعیت کا کردار اور مطمح نظرنہایت کھلا اور واضح مطمح نظر اورکردار ہے۔
 اس کے باوجود پتہ نہیں لوگ مولانا ارشد مدنی صاحب کے حالیہ بیان کو جنگل میں شیر کی دَہاڑ یا اکھاڑے میں پہلوان کی للکار جیسے اعلامیے اور بیانیے سے کیوں تعبیر کررہے ہیں۔ جمعیت اور دیوبند سے وابستہ افراد ایسا کریں تو کچھ مضائقہ نہیں،کہ یہاں تو شخصیت پرستی کو بڑی اہمیت حاصل ہے،یہاں تک کہ پسندیدہ شخصیات پر تنقید کرنا بھی گناہ کرنے جیسا ہے۔ مگر ان کے علاوہ دیگر صحافی اور قلم کار بھی مولانا کے بیان کو جارحانہ تیوروں والا بیان بتارہے ہیں اوراسے توحید کی دعوت کا کھلابیانیہ اور چیلنج کرنے والا اعلامیہ گردان رہے ہیں، پتہ نہیں کیوں۔غالبا انہیں ذرا اونچی آواز میں بولنے سے دھوکہ ہوا ہے،جبکہ سامنے کی علت یہ ہے کہ اونچی آواز سے خطاب کرنا سامعین کے جَن سیلاب کومخاطب کرنے کی ضرورت کے پیش نظر تھا۔ للکارنا مولانا کا مطمحہ نظر بالکل بھی نہیں تھا۔ تعجب ہے کہ جوچیز تھی ہی نہیں لوگ اسی کو نشانزد کررہے ہیں اور ببانگ دہل کررہے ہیں۔
بعض لوگ لکھ رہے ہیں کہ اوم کا تصوروہ نہیں ہے جو اللہ کا تصورہے۔اور یہ تو تصوراتی باتیں ہیں حقائق سے ان کا زیادہ تعلق نہیں ہے،اس طرح تو مولانا کے بیان سے خلط مبحث ہی پیدا ہوا ہے، ممکن ہے ایسا ہو مگر بنیادی طور پرمولانا کا بیان درست ہے۔ جب ہم یہ مانتے ہیں کہ دنیاجہان کے سارے انسان آدم علیہ السلام کی اولاد ہیں تو لازما ایسا ہی ہے کہ دنیا میں جتنے بھی انسان پائے جاتے ہیں،خواہ ان کامذہب،عقیدہ اور ذات کچھ بھی کیوں نہ ہو وہ سب فی الواقع ایک ہی خاندان سے ہیں اورایک ہی ماں باپ سے ہیں۔اس حد تک مولانا کے بیان میں سچائی ہے۔اسی طرح یہ بھی غلط ہے کہ مولانا کا بیان دلت مسلم اتحاد میں بھنگ ڈالنے والا باورکرایا جارہا ہے، جیسا کہ محمدود پراچہ صاحب نے بھی اپنے ایک انٹرویو میں کہا ہے۔ یہ الگ بات ہے کہ میڈیا اور سرکاری کارندے اس بات کی بھر پور کوشش میں ہیں۔ ’منو‘ کے ذکر سے مولانا کا مقصود منوسمرتی بالکل بھی نہیں تھا،مولاناکا بیانیہ سادہ اور بے لوث تھا۔بے شک انہوں نے ملک میں موجود کٹرپنتھی سوچ کوانتہائی ابتدائی تاریخی استدلال کے ذریعے کاؤنٹرکرنے کی کوشش کی ہے۔ اگر یہ استدلال تیر بہدف ثابت ہوجائے تویہ یقینا بڑی کامیابی ہوگی۔
تاہم یہ ضرور کہا جائے گا کہ اس بیان کی ٹائمنگ بہت غلط تھی،غالبا مولانا نے اس طرف دھیان نہیں دیا۔ یہ الیکشن کی تیاری کا زمانہ ہے، اور بر سر اقتدار پارٹی کی الیکشن کی تیاریاں شروع ہوچکی ہیں۔ میڈیا اور ہندتوا وادی طاقتیں اس بیان کو ملک میں افرا تفری پیدا کرنے کے لیے استعمال کریں گی اور انہوں نے ایسا کرنا شروع بھی کردیا ہے۔ 
یوں تو ہر بات کا تصفیہ اس کے نتائج کے اعتبار سے ہی ہونا چاہیے، اگر نتائج امت کے حق میں مفید اور بہتر نکلیں تو کم بہتر اور کم سوجھ بوجھ پر مبنی باتیں، پیغامات اور بیانات بھی قابل تعریف ٹہرجائیں گے اور اگر نتائج غلط نکل جائیں تو بہت زیادہ سوجھ بوجھ کے بعد اٹھائے گئے قدم اور بہت زیادہ سوچ سمجھ کرلیے گیے فیصلے بھی مذموم قرار پاجائیں گے۔ جیسا کہ ہم دیکھ رہے ہیں کہ جمعیت کے دونوں دھڑوں کی موجودہ پالیساں،بیانات،رجحانات اوراقدامات امت کے حق میں مفید ہونے کے بجائے مضر ہی ثابت ہورہے ہیں۔ اس پس منظرمیں نہیں لگتا کہ مولانا ارشد مدنی صاحب کےاس بیان سے کوئی خیر وجود پذیر ہوگا، اس کے برعکس اس سے نقصان پہنچنے کا بہت زیادہ خدشہ ہے۔اور اس سے زیادہ خطرناک یہ ہے کہ اب مناظرہ بازی کا ماحول پیدا کیا جارہا ہے۔ ایسا بالکل نہیں ہے کہ یہ لوگ استدلال سے ہارجائیں گے تو پسپائی اختیار کرلیں گے، یا خاموش بیٹھ جائیں گے بلکہ ایسا ضرور ہے کہ مناظرہ بازی کا ماحول معاندانہ رویوں میں اور بھی شدت پیدا کرے گا۔ کیونکہ جس سے ہم مخاطب ہیں یا مناظرہ کرنا چاہتے ہیں وہ سچ کی تلاش میں نہیں ہیں ، یہ تو پاور اور ستّا کی تلاش میں ہیں اورپاوراور ستّا کی تلاش کرنے والا کوئی بھی شخص پاور اور ستّا کے علاوہ کسی اور چیز کے لیے وفاداراور ایماندار نہیں ہوسکتا، یہاں تک کہ خود اپنے آپ سے اور اپنے ضمیرسے بھی ایماندار نہیں ہوسکتا۔ اگر وہ کسی بات کے بارے میں پورے یقین کے ساتھ جانتا ہو کہ وہ سچ ہے پھر بھی وہ وہی بات کہے گا جو اس کے سیاسی مفاد کے لیے بہتر ہوگی۔
امت مسلمہ بہت نازک دور سے گزر رہی ہے اور یہ دور کسی بھی طرح سے ایسا نہیں ہے کہ قوم کو ستّا دھاری ذہنیت سامنے پوری طرح سپرافگندہ کردیا جائے،کیونکہ وہ نہ تو ہمارے استدلال کو سمجھنے کے لیے ہیں اور نہ ہی ہمدردیاں بانٹنے کے لیے ہیں اورنہ ہی یہ ایساوقت ہے کہ مناظرہ بازی کا ماحول پیدا کیا جائے۔ ملک کی مین اسٹریم کی سیاست کے مقابل مسلم قیادت کی طرف سے ان دونوں رویوں کا رکھا جانا درست نتائج نہیں پیدا کرسکتا۔ یہ وقت ایسا ہے کہ وہ جو ایشوز ریز کررہے ہیں ان میں آگ لگانے کے بجائے ان سے گریزکی پالیسی اختیار کی جائے۔ وہ تویہی چاہتے ہیں کہ افراتفری کا ماحول پیدا ہو اور ہندوتوا ووٹ بینک کومضبوط کیا جائے، ان کی ہمیشہ سے یہی پالیسی رہی ہے اور انہیں دوہزار چوبیس میں بھی کرسی تک پہنچنے کا یہی شارٹ کٹ نظر آرہا ہے۔ تو بہتر یہی ہوگا کہ ہم جانے انجانے میں ان کے آلۂ کار نہ بنیں۔

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

اُردو ڈیٹا بیس کیا ہے؟

ڈیٹا بیس ذخیرہ کرنے کی جگہ کا تکنیکی نام ہے۔ اردو ڈیٹا بیس معیاری اور کارآمد پوسٹس کے ذخیرے کا پلیٹ فارم ہے، جو سوشل میڈیا بالخصوص واٹس ایپ اور فیس بک کے توسط سے پوری دنیا میں ہر روز پھیلائی جاتی ہیں۔
مزید پڑھیں

پوسٹس میں تلاش کریں

اپنی تحریر بھیجنے کے لیے رابطہ کریں

نام

ای میل *

پیغام *