غزل
کہیں ہلکا ہلکا لکھا ہوا کہیں دھندلا دھندلا مٹا ہوا
مجھے آج ہی ترا خط ملا ترے آنسوؤں سے دھلا ہوا
مری زندگی کے گلاب میں ترے پیار کی تھی مہک کبھی
ذرا یاد کر ترے نام سے مرا نام کل تھا جڑا ہوا
کبھی یاد آکے رلا گئی کبھی دل پہ بجلی گرا گیا
وہ نگاہ تیری جھکی ہوئی، وہ دوپٹہ سر سے گرا ہوا
تمہیں اپنی جیت پہ ناز ہے مجھے شرم آتی ہے سوچ کر
وہی کامیاب ہے آج کل ہے ضمیر جن کا بکا ہوا
جہاں ہم ہوئے تھے جدا کبھی وہیں زندگی ہے رکی ہوئی
ذرا دیکھنا اُسی موڑ پر میں تمہیں ملوں گا کھڑا ہوا
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں