عتیق الرحمٰن صفیؔ
کسی شخص پر میں نثار تھا مگر اب نہیں |
مجھے عاشقی کا بخار تھا مگر اب نہیں |
وہ جو بھوت بن کے چمٹ گیا مری ذات کو |
مرے ذہن پر بھی سوار تھا مگر اب نہیں |
وہ جو روز کہتا تھا لے چلو مجھے ڈیٹ پر |
مری جیب پر بھی وہ بار تھا مگر اب نہیں |
وہ کلین شیو پہ تھا فدا مری مونچھ تھی |
بڑے مسئلوں کا شکار تھا مگر اب نہیں |
مری تیزیوں پہ نثار تھیں کئی نازنیں |
مرا راکٹوں میں شمار تھا مگر اب نہیں |
کسی یاد نے مجھے بِیڑیوں پہ لگا دیا |
کبھی انگلیوں میں سگار تھا مگر اب نہیں |
کئی بیگموں کی تھی آرزو کسی دور میں |
کسی مولوی سا خُمار تھا مگر اب نہیں |
وہ جو رات دن مرے پیچھے پیچھے تھا بھاگتا |
مرا اور اُس کا اُدھار تھا مگر اب نہیں |
مجھے دیکھ کر ہے چھپا لیا تُو نے دفعتاً |
ترے ہاتھ میں تو اَچار تھا مگر اب نہیں |
وہ جو بن سنور کے گزر گیا مرے پاس سے |
مری ایک آنکھ کی مار تھا مگر اب نہیں |
٭٭٭
ہا ہا ہا ہا۔ مزیدار بھائی مزیدار۔
جواب دیںحذف کریںشیئر کر رہا ہوں۔ اچھی ویب سائٹ مل گئی ہے۔