📝 ٹرانسکرپشن: شکیب احمد
🎙️ مستفاد از: ڈاکٹر اسرار احمد
اس پر تقریباً اجماع ہے کہ شب قدر رمضان ہی کی ایک شب ہے۔
لیکن رمضان المبارک کی کونسی شب ہے؟ اس پر بعض مفسرین نے تو لکھا ہے کہ چالیس اقوال ہیں۔ چنانچہ صاحبِ تفسیرِ مظہری قاضی ثناء اللہ پانی پتی رحمۃ اللہ علیہ نے، میں نے تفصیل تو نہیں پڑھی، مگر چالیس اقوال نقل کیے ہیں۔ لیکن امام رازی نے جو 9 اقوال نقل کیے ہیں وہ میں تیزی کے ساتھ آپ کو سنا دیتا ہوں۔
1۔ ابن رزیم رحمہ اللہ کا قول ہے کہ وہ رمضان کی پہلی شب ہے۔
2۔ حضرت حسن بصری رحمتہ اللہ علیہ، یہ تابعین میں سے ہیں اس لئے میں رضی اللہ عنہ نہیں کہہ رہا، رحمتہ اللہ علیہ کہہ رہا ہوں۔ تو حضرت حسن بصری رحمۃ اللہ علیہ کی رائے ہے کہ یہ سترھویں شب ہے۔ یعنی وہ شب کہ جس کے اگلے دن غزوہ بدر ہوا ہے، یوم الفرقان۔
3۔ حضرت انس رضی اللہ عنہ مرفوعاً روایت کرتے ہیں کہ یہ 19 ویں شب ہے۔
4۔ محمد بن اسحاق جو بہت بڑے سیرت نگار ہیں، ان کا قول ہے کہ یہ اکیسویں شب ہے۔
5۔ حضرت عبداللہ ابن عباس رضی اللہ عنہما سے ایک قول مروی ہے کہ یہ 23ویں شب ہے۔
6۔ حضرت عبداللہ ابن مسعود رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ یہ 24 ویں شب ہے۔
اور اس کو میں ذرا اہمیت دیتا ہوں۔ اس لیے کہ 24 ویں شب جو ہے سورہ العلق کی ابتدائی آیات کے نزول کے ضمن میں کچھ حساب کتاب کے جوڑنے سے 24 اور 25 ویں شب کا معاملہ جڑتا ہے جو میں نے آپ کو سورہ علق کے درس کے درمیان بتایا تھا۔
7۔ حضرت ابوذر غفاری رحمتہ اللہ علیہ کا قول ہے کہ یہ 25 ویں شب ہے۔
8۔ اس کے بعد حضرت ابی ابن کعب رضی اللہ تعالی عنہ کا قول ہے، یہ وہ ہیں جن کو حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے خود فرمایا تھا کہ قرآن کی سب سے بڑے قاری حضرت ابی بن کعب ہیں، رضی اللہ عنہ۔اور ان کے سینے پر بھی آپ نے تھپکی دی تھی۔ ایک سوال کیا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کہ سب سے عظیم سورت کونسی ہے، اور جب انہوں نے صحیح جواب دے دیا تھا کہ سورہ فاتحہ تو اس پر حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے تھپکی دی کہ تمہیں اللہ تعالی نے بہت صحیح مناسبت عطا کی ہے علم کے ساتھ۔
ان کی اور صحابہ میں سے بہت سے لوگوں کی رائے ہے، یہاں تک کہ یہ کہا جاسکتا ہے کہ بقیہ اقوال جو ہیں وہ شاذ کے درجے میں ہیں اور گویا کہ اگر اجماع نہ کہا جائے تو بہت حد تک کے اتفاق کےدرجے میں ہے کہ یہ ستائیسویں شب ہے۔
اوپر گزرا کہ حضرت عبداللہ ابن عباس کی ایک روایت میں ہے کہ 23ویں شب۔ البتہ مختلف روایت حضرت عبداللہ ابن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے ان میں بھی کچھ لطیف نکات ہیں وہ میں بعد میں بیان کروں گا۔
9۔ اس کے بعد ایک شاذ قول یہ بھی ہے کہ یہ 29 ویں شب ہے۔
یہ گویا کہ نو اقوال ہیں جن میں سے بعض جلیل القدر صحابہ کے ہیں عبداللہ بن مسعود، ابوذر غفاری، عبد اللہ ابن عباس، ابی ابن کعب رضی اللہ عنہم۔
لیکن یہ ہے کہ سب سے زیادہ اتفاق اگر کہا جائے تو ستائیسویں شب کے ہونے پر ہے۔
اس کے بارے میں حضرت عبداللہ ابن عباس نے تین نکتے بیان کئے ہیں:
ایک نکتہ تو یہ ہے کہ پوری سورت مبارکہ جو سورۃ القدر ہے اس میں 30 الفاظ ہیں اور 29 الفاظ میں سے 27 والا لفظ ہے ھی۔
ھی حتی مطلع الفجر۔
اس سے انہوں نے ربط قائم کیا ہے کہ یہ ستائیسویں شب ہے۔
دوسرا نکتہ انہوں نے یہ بتایا ہے کہ اللہ تعالی کو وتر محبوب ہے۔ اللہ وتر و یحب الوتر۔ اللہ اکیلا ہے اور وتر کو پسند کرتا ہے۔ مکمل رمضان کی وتر کو شمار کیا جائے تو 14 سے 15 وتر بن جائیں گے۔ لیکن بہت سی روایات کے حساب سے دیکھا جائے تو تقریبا اجماع ہوجاتا ہے کہ شب قدر آخری عشرے میں ہے۔ آخری عشرے میں بھی پانچ وتر آئیں گے۔ اکیسویں تیئسویں، پچیسویں، ستائیسویں، انتیسویں۔
لیکن عبداللہ ابن عباس کہتے ہیں کہ سات کا ہندسہ اللہ تعالیٰ کو بہت پسند ہے۔ اور بہت سی چیزیں عالم تکوینی اور عالم تشریعی میں سات کے ہندسے کے ساتھ وابستہ ہیں۔ سات آسمان ہیں، سات زمینیں ہیں، ہفتے کے سات دن ہیں، طواف کے سات چکر ہیں، سعی بین الصفا و المروہ سات ہیں۔ اسی طرح سجدے کے اعضاء بھی سات ہیں۔ اس حساب کتاب سے عبد اللہ بن عباس اس نتیجے پر پہنچے کہ یہ ستائیسویں شب ہے۔ اور اس حساب اور نتیجے کی حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے تحسین بھی فرمائی۔
تیسرا نکتہ یہ ہے کہ ترکیب "لیلۃ القدر" کے حروف شمار کیے جائیں تو 9 حروف بنتے ہیں۔ اور یہ ٹکڑا سورۂ ھذا میں 3 مرتبہ آیا ہے۔ اس اعتبار سے 9 ضرب 7 یعنی 27 بنتا ہے۔
بہرحال اس کا تعلق نہ صرف سے ہے نہ نحو سے، نہ روایات سے، لیکن یہ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ کا ایک ذوق ہے۔ اس کو آپ ذوقی باتیں بھی کہہ سکتے ہیں مگر یہ ہمارا آپ کا نہیں بلکہ ابن عباس رضی اللہ عنہ کا ذوق ہے تو اس کی اہمیت مسلم ہے اور اس لیے تذکرہ ہونا چاہیے۔
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں