ایک زمانہ تھا کہ ’’عوامی شاعری‘‘ کا استعارہ حضرتِ نظیرؔ اکبر آبادی ہوا کرتے تھے ۔۔۔ خیر، وقت وقت کی بات ہے۔ اس جدید شاعری کا شفیق الرحمان نے خوب تعاقب کیا ہے۔ اپنے نثر پارے ’’ریویو‘‘ میں لکھتے ہیں:
’’اسی سلسلے میں ہم ایک اور شاعری کی غزل پیش کرتے ہیں (یہ ہم اپنی طرف سے کر رہے ہیں)۔ پرانی شاعری میں بندشیں بہت تھیں اور ہم جذبات کا اظہار کرتے وقت گھُٹ کر رہ جاتے تھے لیکن جدید شاعری میں بڑی وسعت ہے۔ یہاں تک کہ جو کچھ ہم بولتے ہیں، اسے براہِ راست شعروں میں منتقل کیا جاسکتا ہے۔ مثلاً ’اماں ٹہرو بھی سہی‘ یا ’ارے ارے‘ اور ’اوں ہوں‘ کو بھی قافیہ (یا ردیف) رکھ سکتے ہیں۔
اب ہم اپنے دوست ازہرؔ صاحب کی ایک غزل پیش کرتے ہیں۔ ہم نے جہاں ’چ چ‘ لکھا ہے، اسے آپ ’چچ چچ‘‘ پڑھیے گا جو اظہارِ افسوس کے وقت منہ سے نکل جاتا ہے۔
قصۂ قلبِ ناتواں چ چ ۔۔۔۔ دکھ بھری ہے یہ داستاں چ چ
ہر حسیں شکل پر خود آجانا ۔۔۔۔ خود ہی پھر نالہ و فغاں چ چ
تیر کھا کر ہر اک کی نظروں کے ۔۔۔ اور دینا دہائیں چ چ
فصلِ گل میں غم آشیانے کا ۔۔۔ گلۂ آمدِ خزاں چ چ
درِ جاناں پہ خود ہی جا جا کے ۔۔۔ کھانا درباں کی گالیاں چ چ
اک تو یہ دل کی بےتکی باتیں ۔۔۔ اس پہ تخیل شاعراں چ چ
الغرض شیخ جی، محبت کی ۔۔۔ ہے کچھ ایسی ہی داستاں چ چ
کیا کوئی ایسی غزل آج سے پچاس سال پہلے کہ سکتا تھا؟ ہرگز نہیں! یہاں ہمیں دو شعر اور یاد آگئے
جگر کی چوٹ اوپر سے کہیں معلوم ہوتی ہے
جگر کی چوٹ اوپر سے نہیں معلوم ہوتی ہے
لفظ نہیں نے شعرکو چار چاند لگا دیے، کیا معصومیت پیدا ہوگئی، سبحان اللہ! دوسرا شعر ہے
کہیں کرتا ہے کوئی یوں جفائیں نازنیں ہو کر
نہیں کرتا ہے کوئی یوں جفائیں نازنیں ہو کر
وغیرہ وغیرہ!‘‘
جمعہ، 16 اکتوبر، 2020
سبسکرائب کریں در:
تبصرے شائع کریں (Atom)
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں