1 جو لکھنا چاہتے ہیں وہ پڑھیں
اگر آپ تاریخی ناول لکھنا چاہتے ہیں تو چھوٹے بڑے ادیبوں کے تاریخی ناول پڑھیے، اگر آپ کو رومانوی تحریرں پسند ہیں تو دیکھیے کہ اس موضوع پر دوسرے لوگوں نے کیا لکھا ہے اور کیسے لکھا ہے۔ اس کا یہ مطلب نہیں کہ آپ خود کو صرف ایک صنف تک محدود کر دیں، آپ کو دوسرے زمروں سے بھی آگاہی ہونی چاہیے، لیکن آپ جس بارے میں خاص طور پر لکھنا چاہتے ہیں، آپ کو اس کا موضوع کا لازمی طور پر ماہر ہونا چاہیے، اور آپ جو کتابیں پڑھتے ہیں ان کا ساٹھ، ستر فیصد حصہ آپ کے منتخب کردہ موضوع کی کتابوں پر مشتمل ہونا چاہیے۔
2 روزانہ لکھیں
یہ اصول سب سے اہم اور مرکزی ہے۔ لکھنے کے لیے کسی تحریک یا آمد کا انتظار نہ کریں۔ اپنے لیے روزانہ ایک مخصوص وقت مقرر کر لیں، چاہے وہ صرف آدھے گھنٹے کا وقت ہی کیوں نہ ہو۔ اس وقت کو صرف لکھنے کے لیے استعمال کریں، اور اس دوران اپنے آپ کو ہر قسم کی مداخلت اور توجہ کے انتشار سے پاک رکھیں اور بھرپور ارتکاز کے ساتھ لکھنے پر توجہ دیں۔ روزانہ ایک وقت پر لکھنے کا فائدہ یہ ہوگا کہ بقیہ وقت میں آ پ کا لاشعور اسی موضوع پر کام کرتا رہے گا اور جب آپ لکھنے بیٹھیں گے تو خود بخود انسپریشن پکے ہوئے آم کی طرح ٹپک کر سامنے آتی رہے گی۔
3 قطرہ قطرہ دریا
آپ تین سو صفحے کا ناول دیکھ کر سوچتے ہوں گے کہ یہ بڑا مشکل کام ہے، یہ تو کبھی بھی میرے بس کا روگ نہیں ہو سکتا۔ اس کا حل یہ ہے کہ آپ تمام ناول کے بارے میں ایک ساتھ نہ سوچیں۔ صرف اسی منظر پر توجہ دیں جو اس وقت آپ لکھ رہے ہیں۔ آپ دو صفحے روز بھی لکھیں، جو اس مصروف زندگی میں بھی کوئی مشکل کام نہیں ہے، تو صرف چھ ماہ میں ناول کا مسودہ مکمل ہو جائے گا۔
4 پہلا مسودہ گرم
جب آپ ناول پر کام کا آغاز کریں تو بس لکھتے چلے جائیں۔ اپنے لکھے ہوئے کوبہت زیادہ تنقیدی نظر سے نہ دیکھیں۔ بس اس کی کہانی جلد از جلد ضابطۂ تحریر میں لانے پر زیادہ توجہ دیں۔ اس طرح آپ کا لاشعور آپ کا ساتھ دے گا اور کہانی میں کئی ایسے موڑ خود بخود آتے چلے جائیں گے جن کا ابتدا میں آپ نے سوچا تک نہیں ہو گا۔
5 دوسرا مسودہ ٹھنڈا
جب پہلا مسودہ مکمل ہو جائے تو چند دنوں یا ہفتوں کے لیے اسے الگ رکھ دیں۔ اس کے بعد اب اپنے اندر کے سخت گیرنقاد کو باہر لانے کا وقت ہے۔ ناول کو تنقیدی نظر سے دیکھیں۔ پلاٹ کے اندر کوئی جھول رہ گئے ہیں تو انھیں درست کریں۔ زبان کی نوک پلک سدھاریں۔ دوسرا مسودہ مکمل ہونے کے بعد ایک بار پھر اسے کڑی تنقیدی عینک سے پڑھیں اور ضرورت ہو تو دوبارہ ردِ و بدل کریں۔ یہ عمل اس وقت تک دہراتے ہیں جب تک آپ کا مسودہ پالش ہو کر چمکنے نہ لگے۔ تمام بڑے مصنف اپنے ناول کے چار، چار ، پانچ، پانچ، بلکہ بعض اوقات اس سے بھی زیادہ مسودے تیار کرتے ہیں۔
6 بتائیں نہیں، دکھائیں
فکشن لکھتے وقت قاری کو کہانی اور کرداروں کے اندر جذب کرنا بےحداہم ہوتا ہے۔ اس لیے کوشش کریں کہ ہر چیز لیکچر کی طرح بتانے کی بجائے ایسی زبان استعمال کی جائے کہ قاری کے تمام حواس اس طرف متوجہ ہو جائیں۔ اس کے لیے صرف دیکھنے کی ہی نہیں، بلکہ سننے، سونگھنے، چکھنے اور چھونے کے حواس پر بھی توجہ دے کر انھیں تحریر کا حصہ بنانا چاہیے۔ مثال کے طور پر آپ ایک کمرے کا منظر دکھانا چاہتے ہیں، تو اس کے بارے میں لکھتے وقت یہ بھی سوچیے کہ وہاں کس طرح کی آوازیں آ رہی تھیں، کس طرح کی بوئیں/خوشبوئیں موجود تھیں۔ اسی طرح کرداروں کی حسِ ذائقہ اور لامسہ کو بھی بروئے کار لانے کی کوشش کیجیے۔اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ یہ ساری حسیں ایک ہی منظر میں بیان ہوں، لیکن تحریر میں جگہ جگہ سلیقے سے استعمال ہو تویہ قاری کی توجہ کھینچنے کے لیے مقناطیس کا سا کام کر سکتی ہیں۔
7 بےرحمی دکھائیے
اپنی تحریر سے ایسے تمام حصے نکال دیجیے جو مرکزی کہانی میں کوئی کردار نہیں کر رہے۔ اگر آپ نے سورج ڈھلنے یا باغ میں پرندوں کے چہکنے کا منظر بیان کرتے ہوئے دو صفحے صرف کر دیے ہیں لیکن وہ کہانی کو آگے نہیں بڑھا رہے یا ہمیں کسی کردار کے بارے میں معلومات فراہم نہیں کر رہے تو ناول میں ان کی جگہ نہیں بنتی۔ انھیں بےرحمی سے کاٹ کر پھینک دیجیے۔کتاب چاہے کتنی ضخیم کیوں نہ ہو، اس میں کسی فالتو پن کی گنجائش نہیں ہونی چاہیے۔
8 سادہ زبان، سادہ بیان
ہمیشہ یاد رکھیے کہ سادہ زبان اور سادہ اندازِ بیان ہی عمدہ تحریر کی نشانی ہوتے ہیں۔ اگر ایک لمبے لفظ اور ایک چھوٹے لفظ کا مطلب ایک ہی ہے تو چھوٹے لفظ کا انتخاب کریں۔ اگر ایک مشکل لفظ اور ایک آسان لفظ ایک جیسے ہیں تو آسان لفظ چنیے۔ اسی طرح فقرے بھی چھوٹے اور سادہ رکھیے۔ تاہم کہانی کی مناسبت سے فقروں کی لمبائی کم یا زیادہ رکھی جا سکتی ہے تاکہ قاری کو ایک ہی دورانیے کے فقرے پڑھتے وقت یکسانیت کا احساس نہ ہو۔
9 فیڈ بیک
جب آپ اپنی تحریر سے مطمئن ہو جائیں تو چند دوستوں اور ایسے لوگوں سے فیڈ بیک ضرور حاصل کریں جن کی رائے پر آپ کو اعتماد ہو۔ ان سے آپ کو جو مشورے اور تجاویز موصول ہوں، ان کی روشنی میں اپنی تحریر کا ازسرِنو جائزہ لیں۔ اگر کوئی مشورہ قابلِ قبول لگے، خاص طور پر اگر وہ ایک سے زیادہ لوگوں نے دیا ہے، تو اس کی روشنی میں اپنی تحریر میں تبدیلی کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے۔ لیکن کتاب پر حتمی کنٹرول آپ ہی کا ہونا چاہیے کیوں کہ یہ آپ کی کتاب ہے۔
10 کھال موٹی
تنقید سے مت گھبرائیے۔ یاد رکھیے کہ دنیا کے اکثر بڑے ادیبوں کو شروع میں کہا گیا ہے کہ آپ کو لکھنا نہیں آتا، آپ کو یہ کام چھوڑ کر کوئی اور مشغلہ اختیار کرنا چاہیے۔ اگر وہ ادیب اس طرح کی منفی تنقید سے دل برداشتہ ہو کر لکھنا ترک کر دیتے تو آج دنیا کا ادب نہایت کمزور ہوتا۔
11 بونس گر
ناول نگاری سائنس نہیں، آرٹ ہے اس لیے اس میں کوئی اصول یا گر حتمی نہیں ہوتے۔ اس لیے اگر آپ اوپر دیے گئے کسی بھی اصول سے انحراف کرنا چاہتے ہیں تو بڑے شوق سے کیجیے، صرف اس بات کا خیال رکھیے کہ آپ کو علم ہونا چاہیے کہ اصول کیا ہے، اور اسے توڑ کر آپ نے کیا فائدہ حاصل کیا ہے۔
ماخوذ از آکسفورڈ ڈکشنری بلاگ
ماخوذ از آکسفورڈ ڈکشنری بلاگ
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں