احمد فراز
وہ جو آجاتے تھے آنکھوں میں ستارے لے کر |
جانے کس دیس گئے خواب ہمارے لے کر |
چھاؤں میں بیٹھنے والے ہی تو سب سے پہلے |
پیڑ گِرتا ہے تو آجاتے ہیں آرے لے کر |
وہ جو آسودہِ ساحل ہیں انہیں کیا معلوم |
اب کے موج آئی تو پلٹے گی کنارے لے کر |
ایسا لگتا ہے کہ ہر موسمِ ہجراں میں بہار |
ہونٹ رکھ دیتی ہے شاخوں پہ تمھارے لے کر |
شہر والوں کو کہاں یاد ہے وہ خواب فروش |
پھرتا رہتا ہے جو گلیوں میں غبارے لے کر |
نقدِ جاں صرف ہوا خلفتِ ہستی میںفراز |
اب جو زندہ ہیں تو کچھ سانس ادھارے لے کر |
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں