معیاری پوسٹس کا ذخیرہ

جمعہ، 12 فروری، 2021

حصارِ جبر ہے ایمان میرا — عمر فراہی

فیسبک  پر کسی نے  ایک عرب  شہری کے ساتھ اس کی چار نقاب  پوش بیویوں  کی تصویر پوسٹ کی  تھی ۔ چاروں  بیویوں کے ساتھ ان کے سارے بچے بھی بہت  خوش نظر آرہے تھے  ۔یہ  تصویر اس لئے پسند  آئی کہ آج کے  دور میں جہاں ایک بیوی کو خوش رکھنا محال ہو ,جہاں مشترکہ خاندان کی روایت ٹوٹ چکی ہو  ,اکثر گھروں  میں ایک ہی بیوی بچوں کے خاندان مشکل سے ایک کمرے میں اکٹھا ہوکر کبھی کچھ اچھی باتیں کر لیتے ہوں ایسے میں کہیں کوئی اس طرح  مشترکہ بیویوں کے خاندان کی خوبصورت تصویر نظر آئے تو یہ تصویر بھی اسی  طرح لائق تحسین ہے جیسے  کہ دنیا کے امیر  ترین شخص مکیش امبانی کی  بیوی کے ساتھ معروف موسیقار اے آر رحمان  کی بیٹی خدیجہ نے اپنے حجاب کے ساتھ فوٹو گرافی  کا مظاہرہ کرنے  میں کوئی شرمندگی محسوس نہیں کی ۔

ایسی  ہی ایک  تصویر ساؤتھ افریقہ کے کرکٹر  ہاشم آملہ  کی بیوی کی ایک کرکٹ اسٹیڈیم میں بھی نظر آئی تھی  ۔ یقیناً ایمان لانے اور غور  کرنے والوں کیلئے  اللہ کی طرف  سے ایسی ایمان افروز تصویریں  اللہ  کی نشانیوں میں سے ہیں جسکی حوصلہ افزائی بھی ضروری  ہے ۔اسی ذہنیت کو  مدنظر رکھتے ہوئے  ہم  نے چار بیویوں  والی پوسٹ  کو  اس لئے لائک کردیا کہ کم  سے کم اس  حوصلہ افزائی سے  ایمان  تازہ ہوجائے  ۔ اتفاق سے محترمہ بھی بازو میں بیٹھی ہوئی تھیں انھوں نے فوراََ موبائل ہاتھ سے لیا  اور لائک کی بٹن پر دوبارہ ہاتھ لگا کر انلائک کردیا ۔

میں ان کے جذبات کو سمجھ سکتا تھا اس لئے ایک شریف ہندوستانی شوہر کی طرح مسکرا کر  رہ گیا ۔حالانکہ یہ قرآن کا حکم  ہے اللہ نے جسے استطاعت بخشی ہے اگر وہ چار شادیاں بھی کرلے  تو اس کے اس عمل کو  برا محسوس کرنا  بھی قانون الہٰی سے بغاوت ہے  ۔مگر کیا کیا جائے ماحول اور معاشرے سے صرف چرند و پرند  ہی متاثر نہیں  ہوتے اس کے  اثرات انسانی آبادی پر بھی پڑتے ہیں ۔ہم  جس سیکولر  اور شرکیہ ماحول اور معاشرے کے باشندے  ہیں یقیناً اس کے منفی اثرات سے ہمیں بھی تو متاثر  ہونا ہی ہے کہ

"لوگ کیا کہیں گے " 

لیکن جس طرح ایک  ہائی پروفائل معاشرے سے تعلق رکھنے والی نقاب  پوش خدیجہ اور ہاشم آملہ کی بیوی کو دیکھ کر اسلام پسند لوگوں کو خوشی محسوس ہوتی ہے کبھی تو اسلام  پسندوں کو ایسی بھی  تصویریں دیکھ کر خوش ہونے کا موقع  ملنا چاہئے جب   کسی شادی  وغیرہ کی تقریب  کے موقع پر ہندوستانی معاشرے کی محترمائیں بھی کسی بہن   کے ساتھ  فخر سے اپنا تعارف کروائیں  کہ ہم دونوں فلاں صاحب کی شریک حیات ہیں  !

معاشرے کی اصلاح کیلئے کچھہ بیداریاں

ماؤں بہنوں اور بیویوں میں   بھی آنا چاہیے لیکن ہندوستانی   معاشرے میں  شاید ایسی تصویریں   دیکھنے کو  آنکھیں ترس جائیں !!

اس کی وجہ شاید  یہ بھی ہو کہ تعدد ازدواج  کے معاملے میں ہندوستانی  قدامت پرست شرکیہ   معاشرہ  بھی شدت کے ساتھ توحید کا قائل ہے ۔

سچ  تو یہ  ھے کہ اٹھارہویں  صدی کے  بعد قومی یکجہتی کی بنیاد پر  آئین جمہوریت اور سیکولرازم کا جو  فرمان  نافذ  ہوا اس ماحول میں رسول ﷺ  اور  اصحاب رسول کی سنت اور  سیرت تو محض کتابی باتیں  ہیں ہم  لوگ جو  ابن تیمیہ اور محمد  بن عبدالوہاب  کی جدید اسلامی  تشریحات  اور اجتہاد پر مر مٹنے کی باتیں   کرتے ہیں اب یہ شخصیات بھی کسی مقدس خیالی  بت اور احترام کے سوا   اور کچھہ نہیں رہیں   ۔مسلمانوں  میں قرآن و حدیث , اسلامی  شریعت اور  اسلامی شعار کا احترام تو  باقی رہا   لیکن عمل ناپید ہے   ۔کسی مسلمان  کی شادی میں ایک  ساتھ اپنی دو نقاب پوش بیویوں کے  ساتھ جانے کا تصور تو  محال ہی ہے صرف اکلوتی نقاب پوش بیوی   اور بچیوں کے ساتھ ہی  شریک ہوں تو خود مسلمان عورتیں ہی ایسی بہنوں  سے نقاب اتارنے کی ضد کرتی ہیں ۔یہی صورتحال تعلیمی اداروں میں بھی  ہے۔ اگر کوئی حجاب کی پابند خاتون ٹیچر  حجاب کی افادیت اور اس کے منفی  اثرات پر  بحث کرے تو  اسے یہ کہہ  کر ذلیل کیا جاتا ہے کہ یہ طالبانی سوچ  ہے  ۔انتہا  پسندی بنیاد پرستی  اور طالبانیت جیسی  اصطلاحات اسلام کو  بدنام کرنے کی  مغربی معاشرے اور  میڈیا کی  پیداوار ہیں لیکن افسوس اب  ان اصطلاحوں اور   استعاروں  سے وہ  لوگ بھی اپنی ذہنی خلش کو تسکین پہنچاتے ھیں جو  دینی اور خالص مسلم  اداروں کے فارغ  اور ذمدار ہیں  ۔

کبھی میں  یہ سوچتا ہوں کہ میں ستائیس سالوں کے درمیان قرآن کے ایک  احکام کے تعلق سے اپنی شریک حیات کی ذہنیت نہیں بدل سکا اگر میں موجودہ معاشرے میں  داعی کے فرائض انجام دوں تو دوسروں کی ذہنیت کو کیسے اور کتنا بدل سکتا ہوں ؟۔

شاید  میں تنہا نہیں ہوں ہندوستان میں جہاں دعوت تبلیغ  میں مصروف تمام تنظیموں اور  تحریکوں کی جدوجہد ناکام اور زوال پزیر  ہے جید  علماء دین  جو  گزر  چکےہیں یہ لوگ معاشرے کی اصلاح کرنا تو دور کی بات بہت ساری بدعات اور اور خرافات کے خلاف خاموش رہے یا  ان خرافات کے خلاف عملی تحریک بھی نہیں  شروع کی ۔شاید اچانک تغیر پزیر حالات  سے مسلم سلطنتوں کے انتشار اور مغربی یلغار  کے دوران  مسائل  میں گھرے ہوئے  علماء کرام کی بھی  اپنی مجبوری رہی ہوگی لیکن   اب جن رسموں بدعتوں  اور خرافاتوں کا ناقابل تسخیر پہاڑ کھڑا ہوچکا ہے یا ساری الجبل کی آواز بھی حصارِ جبر  میں ہے !!

اسی درمیان اگر کسی  خدیجہ جورم وین ,ایون ریڈلی یا پندرہ سال پہلے ٹائمس آف انڈیا کی خاتون جرنلسٹ کملا

 ثریا کے قبول اسلام کی مثبت  تصویریں ہمیں خوش   کرتی  رہی ہیں تو اس میں کچھ  تحریکوں کا کردار  اتنا ضرور رہا ہے  کہ انہوں نے کچھہ جہاندیدہ  مصنفین کے لٹریچر اور قرآن کے  تراجم کو بازار میں دستیاب کروایا اور یقیناً یہ  بھی ایک  اچھا کام  ہوا ورنہ  مولانا حالی سے لیکر علامہ  اقبال اور سرسید صاحب  کو علماء کی اکثریت  سے  یہی شکوہ رہا ہے کہ انہوں  نے عوام کو  مسلکی خرافات میں  الجھا کر قوم  کے شعور کو ہی قتل کر دیا ۔جو چلے تھے داعیانہ کردار ادا کرنے انہیں کون سمجھائے کہ اب اس دور  پرفتن میں داعی ہونا تو دور کی بات  صاحب ایمان  ہونا بھی  اقبال کے اس شعر کے مترادف ہے کہ

یہ شہادت گہہ الفت میں قدم رکھنا ہے
لوگ آسان سمجھتے ہیں مسلماں ہونا

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

اُردو ڈیٹا بیس کیا ہے؟

ڈیٹا بیس ذخیرہ کرنے کی جگہ کا تکنیکی نام ہے۔ اردو ڈیٹا بیس معیاری اور کارآمد پوسٹس کے ذخیرے کا پلیٹ فارم ہے، جو سوشل میڈیا بالخصوص واٹس ایپ اور فیس بک کے توسط سے پوری دنیا میں ہر روز پھیلائی جاتی ہیں۔
مزید پڑھیں

پوسٹس میں تلاش کریں

اپنی تحریر بھیجنے کے لیے رابطہ کریں

نام

ای میل *

پیغام *